تفسير ابن كثير



سورۃ الشعراء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ[116] قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ[117] فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَنْ مَعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ[118] فَأَنْجَيْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ[119] ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ[120] إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ[121] وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ[122]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] انھوں نے کہا اے نوح! یقینا اگر تو باز نہ آیا تو ہر صورت سنگسار کیے گئے لوگوں سے ہوجائے گا۔ [116] اس نے کہا اے میرے رب! بے شک میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا۔ [117] پس تو میرے درمیان اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے،کھلا فیصلہ اور مجھے اور میرے ساتھ جو ایمان والے ہیں، انھیں بچالے۔ [118] تو ہم نے اسے اور ان کو جو اس کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں تھے، بچا لیا۔ [119] پھر اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔ [120] بے شک اس میں یقینا عظیم نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔ [121] اور بلاشبہ تیرا رب، یقینا وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے۔ [122]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انہوں نے کہاکہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کردیا جائے گا [116] آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا [117] پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے با ایمان ساتھیوں کو نجات دے [118] چنانچہ ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشتی میں (سوار کراکر) نجات دے دی [119] بعد ازاں باقی کے تمام لوگوں کو ہم نے ڈبو دیا [120] یقیناً اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ ایمان ﻻنے والے تھے بھی نہیں [121] اور بیشک آپ کا پروردگار البتہ وہی ہے زبردست رحم کرنے واﻻ [122]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] انہوں نے کہا کہ نوح اگر تم باز نہ آؤ گے تو سنگسار کردیئے جاؤ گے [116] نوح نے کہا کہ پروردگار میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا [117] سو تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کردے اور مجھے اور جو میرے ساتھ ہیں ان کو بچا لے [118] پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، ان کو بچا لیا [119] پھر اس کے بعد باقی لوگوں کو ڈبو دیا [120] بےشک اس میں نشانی ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے [121] اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے [122]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 116، 117، 118، 119، 120، 121، 122،

تذکرہ نوح علیہ السلام ٭٭

لمبی مدت تک جناب نوح علیہ السلام ان میں رہے دن رات چھپے کھلے انہیں اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہے لیکن جوں جوں آپ علیہ السلام اپنی نیکی میں بڑھتے گئے وہ اپنی بدی میں سوار ہوتے گئے بالآخر زور باندھتے باندھتے صاف کہہ دیا کہ اگر اب ہمیں اپنے دین کی دعوت دی تو ہم تجھ پر پتھراؤ کر کے تیری جان لے لیں گے۔‏‏‏‏

آپ علیہ السلام کے ہاتھ بھی جناب باری میں اٹھ گئے قوم کی تکذیب کی شکایت آسمان کی طرف بلند ہوئی۔ اور آپ نے فتح کی دعا کی فرمایا کہ اے اللہ! میں مغلوب اور عاجز ہوں میری مدد کر میرے ساتھ میرے ساتھیوں کو بھی بچا لے۔‏‏‏‏

پس جناب باری عزوجل نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول کی۔ انسانوں جانوروں اور سامان اسباب سے کچھا کچھ بھری ہوئی کشتی میں سوار ہو جانے کا حکم دے دیا۔

” یقیناً یہ واقعہ بھی عبرت آموز ہے لیکن اکثر لوگ بےیقین ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رب بڑے غلبے والا لیکن وہ مہربان بھی بہت ہے “۔
6247



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.